ماہنامہ
دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری
مطابق جولائی 2010 ء
جنت کا راہی
شہید اسلام حضرت مولانا مفتی سعید احمد جلالپوری شہید
…. سیرت و کردار
(۲)
از: (مولانا) زبیر احمد صدیقی
خادم جامعہ فاروقیہ شجاع آباد (ملتان)
مسلکی
تصلُّب
رحمت
ِدو عالم جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین
گوئی فرمائی تھی کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئے
تھے، میری اُمت تہتر (۷۳) فرقوں
میں تقسیم ہو گی، ان میں ایک جماعت نجات یافتہ
ہو گی باقی دوزخی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نے دریافت کیا نجات یافتہ جماعت کون سی ہو گی؟ آپ
علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو جماعت میرے اور میرے
صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے والی ہو گی وہ نجات پانے والی ہو گی۔
اس پیشین گوئی کے مطابق ہر دور میں کچھ جماعتیں
اسلام کے شجر ثمردار سے کٹ کر بے ثمر اور بے سایہ بن کر ضائع ہوتی رہیں
اور حق کے راستے سے ہٹی رہیں۔ ہر زمانے کے اہلِ حق علماء کا فریضہ
رہا ہے کہ وہ صراطِ مستقیم سے ہٹنے والی ان جماعتوں کی نشاندہی
کریں اور حق کو باطل سے ممتاز اور جدا رکھ کر تلبیس حق و باطل نہ ہونے
دیں۔ صراطِ مستقیم پہ چلنے والی جماعتِ حق وہی ہے
جو توحید و سنت پہ قائم ہو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کو معیارِ حق جانے اور انہیں اپنا مقتدا و پیشوا بنائے اور حضور
علیہ السلام و صحابہ کرام کی سنت کو مدوّن کرنے والے ائمہ مجتہدین
کے اجتہاد کو معتبر جانتے ہوئے دین کی تعبیر و تشریح کے
حوالے سے اُمت کی مسلّمہ علمی و عملی شخصیات، اسلاف و
اکابر پر مکمل اعتماد کرے۔ علماء کے اجماع کو حق جانے اور قرآن کریم کی
تفسیر اُمت کے اجماعی نظریات و عقائد اور سلف کی تعبیر
و تشریح کے مطابق کرے۔ بصورت ِ دیگر صراطِ مستقیم نصیب
نہیں ہوتا۔
حضرت
مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نوّراللہ مرقدہ اہل السنت
والجماعت کے نظریات کے امین اور داعی و مفکر تھے، انہیں
اپنے اکابر و اسلاف پر مکمل اعتماد تھا، وہ سلف بیزار قوتوں سے شدید
متنفر تھے۔ وہ ایسے لوگوں کو اہل السنت والجماعت سے خارج گردانتے تھے۔
انہوں نے تادمِ زیست اپنے شیخ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی
شہید رحمہ اللہ کی طرح منکرینِ ختم نبوت، منکرینِ صحابہ،
منکرین ائمہ مجتہدین، منکرین اجماعِ امت، منکرینِ حیاة
النبی ا اور سلف بیزار فتنوں کے خلاف جہاد فرمایا۔ ان کی
تقریر و تحریر اہل السنت والجماعت کی مکمل وکالت کرتی اور
بڑے سلیقہ اور علمی انداز سے وہ تمام فتنوں کو ناک آؤٹ کرتے۔
حضرت
مولانا جلال پوری شہید رحمة الله عليه علماء دیوبند کو صحیح
اہل السنت والجماعت سمجھتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ جس مسئلہ میں امام اہل
السنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسین
رحمہ اللہ خلیفہ مجاز حضرت شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد
مدنی رحمة الله عليهمتفق ہوں، بس وہ
میرا عقیدہ ہے۔
دور
حاضر کے جدید فتنوں پر بھی ان کی کڑی نظر تھی، وہ
ان کے گمراہ کن نظریات سے بخوبی آگاہ اور ان کے رَد کے لئے سرگرمِ عمل
رہا کرتے تھے۔ انہوں نے بینات کے ادارتی صفحات پر ”بصائر و عبر“
میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر
خالد مسعود کی دین کے حوالے سے غلط تعبیر و تشریح پر مدلل
مضامین تحریر فرمائے۔ جاوید غامدی نامی نام
نہاد سکالر نے بھی میڈیا پر گمراہی کا ایک بہت بڑا
دروازہ کھول رکھا ہے، جس نے داڑھی، پردہ، حدود و قصاص سمیت کئی
ایک شعائر اسلامی اور احکامِ خداوندی میں تحریف کا
راستہ اختیار کیا اور اس کے دامِ فریب میں ایک بڑے
علمی خاندان کے ایک چشم و چراغ بھی آ گئے، مولانا رحمة اللہ علیہ
اس بارے سخت متفکر اور پریشان تھے۔ شہادت سے ایک ماہ قبل مورخہ ۱۰/فروری ۲۰۱۰ء جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کی
مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تشریف لائے، اجلاس سے فراغت کے
بعد اہلِ علم کی رخصتی کے موقع پر کھڑے کھڑے انہوں نے علماء کرام کو
اس فتنہ کی جانب متوجہ فرمایا اور گفتگو کا یہ سلسلہ اتنا دراز
ہوا کہ راقم الحروف اپنی دیرینہ علالت کی وجہ سے کھڑے
رہنے سے عاجز آ گیا، کئی بار بیٹھنے کی مؤدبانہ درخواست کی
لیکن موضوع کی دلچسپی اور گفتگو کے انہماک کی وجہ سے وہ میری
درخواست پر غور نہ فرما سکے، بالآخر بندہ کے لئے ایک جانب کرسی پر بیٹھ
جانے کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہ رہا۔
شہادت
سے قبل انہوں نے مدعی ٴ نبوت یوسف کذاب علیہ ماعلیہ
کے جھوٹے خلیفہ اول زید حامد کے مکر و فریب اور دجل کا پردہ چاک
فرمایا۔ زیدحامد ان دنوں ایک ٹی وی چینل
پر اپنے تئیں طالبان کا نمائندہ، امریکہ و یورپ کا مخالف اور
اسلام کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ جبکہ یہی زید جو کبھی
زید زمان اور آج زید حامد ہے ماضی قریب میں یوسف
کذاب و لعین کا ہمدرد ، کیس میں اس کا معاون اور اس کا قریبی
ساتھی تھا۔ اسے بری کرانے کے لئے وہ ہر قسم کے حربے استعمال
کرتا رہا۔ یوسف کذاب کے جہنم رسید ہو جانے کے بعد وہ منظر سے
غائب ہو گیا اور پھر وہ زیدحامد کے نام سے نئے روپ میں قوم کے
سامنے آ کر پَر تولنے لگا۔
مولانا
سعید احمد جلال پوری شہید رحمہ اللہ نے اس کا پردہ چاک فرمایا
اور ”رہبر کے روپ میں راہزن“ کے نام سے ایک تفصیلی مقالہ
تحریر فرمایا جو روزنامہ اسلام میں ”ہیں کواکب کچھ نظر
آتے ہیں کچھ“ کے عنوان سے تین قسطوں میں شائع ہوا اور آخری
قسط اسی روز شائع ہوئی جس روز شام کو وہ برسرِ عام قتل کر دیے
گئے۔
اس
مقالہ میں مولانا شہید رحمة الله عليه نے اس مکار و عیار کے
راہزن ہونے کو مدلل انداز میں پیش فرمایا۔ اس عیار
کی عیاری طشت از بام ہوئی تو اس کے سامنے اپنے تحفظ کے
لئے مولانا شہید کو اپنے راستہ سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہٴ
کار نہ رہا۔ یوں مولانا سعید احمد جلال پوری شہید
ناموسِ رسالت کے تحفظ کیلئے جھوٹے نبی اور اس کے پیروکاروں کے
خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔
مولانا
شہید رحمة الله عليه کی حیات میں یہ مکار تقیہ
کرتے ہوئے یوسف کذاب سے اظہارِ برأت کر دیا کرتا تھا لیکن
مولانا کی شہادت کے بعد زیدحامد یوسف کذاب کا حامی اور اس
کا وکیلِ صفائی بن گیا ہے۔ چنانچہ اس لنک ” http://www.youtube.com/user/brasstackspk#p
/u/12/8Ou5MFt8GuA“ پر اس کی
طرف سے یوسف کذاب کی صفائیاں اور صحابیت و خلیفہ کی
اسلامی اصطلاحات میں تحریفات کر کے اپنے آپ کو اور یوسف
کذاب کو مسلمان ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ یوں
مولانا شہید رحمة الله عليه کے موقف کو زیدزمان نے اپنی زبان سے
تسلیم کر کے یوسف کذاب کے ساتھ اپنے ناطہ کو تسلیم کر لیا
ہے۔
سماجی
خدمات
مولانا
سعید احمد جلال پوری شہید رحمہ اللہ اپنی ذات میں ایک
انجمن تھے، وہ اکیلے ایک جماعت کا کام سرانجام دیتے تھے۔
انہیں حق تعالیٰ نے خدمت ِاسلام کے ساتھ خدمت و ہمدردیٴ
انسانیت کا جذبہ بھی عطا کیا تھا۔ یہ وصف علماء
ربانیین کو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت
میں ملا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کی
زوجہ محترمہ اُم المومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی
اللہ عنہا کا ارشاد گرامی ہے:
انک
لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم ، وتقریٴ الضیف، وتعین
علٰی نوائب الحق…(صحیح بخاری شریف ص ۵۷۔ ۵۸ مکتبہ رحمانیہ)
حضرت
مولانا مفتی سعید احمد جلال پوری شہید رحمة الله عليه بھی
تحمل الکل، وتکسب المعدوم کا مصداق بن کر بیسیوں مدارس کا بوجھ اپنے
سر پر لادے ہوتے تھے۔ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت کو خاموشی کے
ساتھ پورا کر دینے کے عادی تھے۔ عام سماجی ورکروں کے
برعکس انہوں نے سینکڑوں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا، مریضوں
کے علاج کروائے، دائمی مریضوں کی ادویات کا مستقل انتظام
کروایا، کئی حضرات کے لئے باقاعدہ غلہ کا انتظام فرمایا، متعدد
مستحقین سے مکانات کی تعمیر کیلئے تعاون فرمایا، کئی
ایک بیوگان کا خرچ اٹھایا، کئی یتیموں کا
سہارا بنے لیکن کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی۔ نہ تشہیرکی
اور نہ ہی اعلان۔ وہ درمند انسان تھے۔ جہاں تک بس میں
ہوتا لوگوں کے غموں کا مداوا فرماتے۔
پاکستان
بھر سے اہلِ مدارس آپ کی خدمت میں تشریف لاتے ، آپ کو اپنے
مدارس کی ضروریات سے آگاہ فرماتے ، آپ حتی المقدور خود بھی
تعاون فرماتے اور اہلِ ثروت کے نام تعاون کے لئے ترغیبی خطوط بھی
تحریر فرما دیتے۔ بسا اوقات وہ اہلِ مدارس کے تقاضے پر اہلِ خیر
کو فون فرما کر شفاعت ِحسنہ کا اجر حاصل فرماتے۔
حضرت
مفتی سعید احمد جلال پوری شہید رحمة الله عليه جہاں غریبوں،
مسکینوں، یتیموں ، مریضوں، معذوروں، بیوگان، اہلِ
مدارس اور مساجد کے محسن تھے وہاں وہ اہلِ خیر اور اہلِ ثروت کے بھی
بے پناہ مشفق تھے۔ حضرت کی برکت سے ان حضرات کی زکوٰة،
صدقات، عطیات صحیح اور مستحق جگہوں پر خرچ ہوتیں اور حضرت شہید
اپنا قیمتی وقت صرف فرما کر ان لوگوں کے عطیات صحیح مصارف
پر خرچ کرانے کی بذاتِ خود بھی نگرانی فرماتے۔
حضرت
شہید رحمة الله عليه اپنے اکابر و اسلاف اور حضرات ِ صحابہ کی سنت پر
عمل پیرا تھے کہ کروڑوں روپے خرچ فرمائے لیکن اپنی ذات اور اہلِ
خانہ کی پرواہ نہیں فرمائی۔ جزاہ اللہ تعالیٰ
احسن الجزاء۔
حضرت
شہید رحمة الله عليه کے غیر معروف رفاہی اور سماجی خدمات
تو اَن گنت اور بے شمار ہیں، وہ دینی مدارس اور ادارے جن کی
وہ مکمل یا جزوی کفالت فرماتے ان کی بھی صحیح تعداد
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے یا حضرت شہید رحمة الله عليه ہی
جانتے تھے۔ لیکن ایسے دینی ادارے جن کی نسبت
حضرت شہید رحمة الله عليه کی طرف معروف ہے اور حضرت شہید رحمة
الله عليه نے اپنے آخری رسالہ ”رہبر کے روپ میں راہزن“ کے آخر میں
ان کا ذکر فرمایا ہے وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
کراچی: اس جماعت سے آپ کی والہانہ وابستگی ڈھکی چھپی
نہیں وہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے مشن کو زندگی بھر اپنائے رہے اور ختم
نبوت کے مشن پر ہی حضرت شہید رحمة الله عليه نے اپنی جان کا
نذرانہ پیش فرمایا۔
۲۔ مہتمم جامعہ امام ابویوسف شادمان
ٹاؤن کراچی
۳۔ مہتمم مدرسہ حفصہ للبنات۔ ملیر
کراچی
۴۔ مہتمم مدرسہ قرآن کریم یوسفیہ
شانتی نگر کراچی
۵۔ خطیب جامع مسجد باب رحمت شادمان ٹاؤن
کراچی
۶۔ رکن شوریٰ جامعہ مدنیہ
بہاولپور
۷۔ رکن شوریٰ جامعہ فاروقیہ
شجاع آباد ضلع ملتان
واضح
رہے کہ حضرت والا جب جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کے رکن شوریٰ
بنائے گئے اس وقت جامعہ میں درجہ سادسہ بنین اور خاصہ بنات تک تعلیم
ہوتی تھی۔ طلباء و طالبات کی تعداد بھی تین
صد سے زائد نہ تھی جبکہ جامعہ کا کل رقبہ 2کنال تھا، حضرت کی سرپرستی
کی برکت سے اس وقت جامعہ میں بنین و بنات کے دورہٴ حدیث
شریف سمیت دورہٴ تفسیر قرآن کریم معہ تقابل ادیان
و مسالک جملہ درجات کی تعلیم دی جا رہی ہے اور جامعہ کا
رقبہ ۳۳ کنال ، طلباء و طالبات کی
تعداد پندرہ سو کے قریب ہے۔
۸۔ رکن شوریٰ جامعہ حسینیہ
علی پور
۹۔ رکن شوریٰ جامعہ قادریہ
حنفیہ ملتان
اس کے
علاوہ آپ اپنے آبائی گاؤں نوراجہ بھٹہ جلالپور پیروالا ملتان میں
اپنے والد گرامی حضرت جام شوق محمد صاحب رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ و
مسجد جس کی نگرانی آپ کے بھائی قاری فاروق احمد صاحب فرما
رہے ہیں، کی بھی مکمل سرپرستی و کفالت فرماتے۔
نیز
سینکڑوں دینی کتب کی اشاعت اور قیمتی کتب کی
خریداری کے بعد ان کی تقسیم بھی حضرت کے سماجی
کارناموں میں شامل ہے۔
علمی
و ادبی خدمات
حضرت
جلالپوری شہید رحمہ اللہ کو باری تعالیٰ نے بے پناہ
علمی اور ادبی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپ نے زندگی
بھر قال اللہ وقال الرسول کی صدا بلند فرمائی۔ طلب ِعلم میں
دیوانہ وار مختلف اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے ادب تہہ فرمائے، آپ اپنے آبائی
علاقہ نوراجہ بھٹہ، طاہروالی، ظاہر پیر، کبیروالہ، شجاع آباد،
کراچی مختلف اساتذہ کرام سے علومِ نبویہ حاصل کرتے رہے۔ فراغت
کے بعد آپ نے مختلف دینی مدارس میں تدریس کے فرائض
سرانجام دیے۔ آپ کو حق تعالیٰ نے تحریر و ادب میں
یدِطولیٰ مرحمت فرمایا تھا۔ آپ کے علمی ادبی
مضامین ماہنامہ بینات، ہفت روزہ ختم نبوت، روزنامہ اسلام، روزنامہ
جنگ، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند اور کئی ایک جرائد و رسائل اور
اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ بینات کے ادارتی صفحات
پر آپ کے علمی و ادبی جواہر پارے بکھرے ہوئے ہیں۔ علاوہ
ازیں آپ کی تصنیفات میں معارف بہلوی ۵ جلدیں، بزمِ حسین دو جلدیں،
حدیث ِدل ۳جلدیں، پیکر اخلاص، فتنہ گوہر
شاہی، تخریج و نظرثانی آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۱۰ جلدیں معروف و مشہور ہیں۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی سلاست نصیب فرمائی تھی۔
آپ کی تحریر قاری کے دل میں اتر جاتی، قاری
جب آپ کی تحریروں کو پڑھنا شروع کرتا، مکمل کرنے تک چھوڑنے کو جی
نہ چاہتا۔ آپ کے قلم میں ثقل کی بجائے چاشنی ہوتی۔
الفاظ کو موتیوں کی طرح آپ تحریر کی لڑی میں
پرو دیتے۔ یوں لگتا تھا کہ آپ کے قلم کے سامنے الفاظ ہاتھ جوڑے
کھڑے ہیں۔ حسنِ الفاظ ، استعارات، مرادفات کے ساتھ آپ کی تحریریں
اور مضامین معنی خیز اور علمی بھی ہوا کرتے تھے۔
آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے اصلاحِ عقائد و اصلاحِ اعمال کی
خدمت سرانجام دی۔ حکمرانوں ، اربابِ اختیار کو مصیب
مشوروں سے نوازا، اعلاء کلمة اللہ، کفر و زندقہ، الحاد و ارتداد ، بے دینی
اور فتنوں کا تعاقب فرمایا۔ خلقِ خدا کی خیرخواہی
اور انسانوں کی ہمدردی فرمائی، قرآن و سنت کی اشاعت اور دینی
مسائل کو ترویج دی۔
آپ کے
علمی کارناموں میں آپ کے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی
شہید رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ تصنیف آپ کے مسائل اور ان کا حل
کی دس جلدوں کی تخریج و ترتیب شامل ہے جو امید ہے
عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ جائے گی۔
سوئے
جنت
حضرت
مولانا مفتی سعید احمد جلالپوری شہید رحمة الله عليه کی
تقریرو تحریر سے امت ِمسلمہ کو بیداری، نوجوانوں کی
اصلاح و تربیت اور دینِ حق کو مضبوطی نصیب ہوئی۔
آپ کی پُرمغز تحریروں سے حفاظت ِدین، حفاظت ِمسلک، حفاظت ِوطن
اور تحفظ نظریہ پاکستان کی دولت نصیب ہوئی۔ زیدحامدجیسے
کئی ایک فتنہ گروں کی نیند آپ کی تعلیمات کی
بدولت اڑ چکی تھیں۔ مغربی استعمار اور اس کے ایجنٹ
بھی مولانا کی شب و روز کی مساعی سے تلملا اٹھے۔ آپ
کو راستے سے ہٹانے کے لیے بین الاقوامی اور مقامی سازشیں
تیز تر ہو گئیں۔ آپ کو دھمکی آمیز کالوں اور پیغامات
کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آپ بھی ہمیشہ کے لئے اپنے مشائخ کے
راستے پہ چلتے ہوئے نبیین ، صدیقین، شہداء اور صالحین
کی رفاقت اپنے لئے پسند فرما چکے تھے، اس لئے وہ ان تمام خطرات کو بھانپ
جانے کے باوجود پُرسکون اور مطمئن رہے، بلکہ استعداد لیوم المعاد میں
مصروف ہو گئے، یعنی اپنے آپ کو حق تعالیٰ کے سامنے پیش
کرنے کے لئے تیاری میں مصروف ہو گئے۔
شہادت
سے ایک ماہ قبل جنوبی پنجاب کے تین جامعات کے سالانہ شوریٰ
کے اجلاس کے سلسلہ میں تشریف لائے۔ مورخہ ۸/فروری
کو جامعہ مدنیہ بہاولپور، ۹/فروری
کو جامعہ حسینیہ علی پور اور ۱۰ فروری کو جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کے
اجلاس میں شرکت فرمائی۔ اس دوران دو شب آپ کا قیام جامعہ
فاروقیہ شجاع آباد کے مہمان خانہ میں رہا۔ آپ کے ساتھ احقر کا
کافی وقت خلوت میں گزرا، کئی معاملات میں حضرت سے مشاورت
بھی ہوئی۔ حضرت نے بھی شفقتاً اپنے کچھ احوال بتلائے۔
اس دوران ایک خواب کا بھی ذکر فرمایا اور یہ خواب اس سے
قبل بھی وہ ایک مرتبہ احقر کو بیان کر چکے تھے، فرمایا کہ
خواب میں حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید رحمة الله
عليه سے ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے آؤ آپ کو جنت کی سیر
کرائیں۔ چنانچہ ہم دونوں نے جنت میں سیر شروع کر دی۔
فرمایا کہ یہ خواب پوری شب پر محیط تھا اور ہم پوری
رات خواب میں جنت کی سیر کرتے رہے، ہم دونوں مزے مزے سے جنت میں
پھرتے رہے اور خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ میں نے مفتی
محمد جمیل خان شہید رحمة الله عليه سے پوچھا، بھائی وہ ہمارے
حضرت لدھیانوی شہید رحمة الله عليه کہاں ہیں؟ وہ تو آپ سے
قبل یہاں آئے تھے؟ مفتی صاحب نے فرمایا حضرت مولانا محمد یوسف
لدھیانوی شہید رحمة الله عليه کا گھر ابھی بہت آگے ہے۔
ہم دونوں چلتے چلتے بہت آگے چلے گئے۔ اچانک مجھے مفتی محمد جمیل
خان نے فرمایا وہ سامنے اس گھر میں مولانا لدھیانوی شہید
رحمة الله عليه تشریف فرما ہیں۔ میں آگے بڑھا اور دروازہ
کھول کر اندر جانے لگا ، اتنے میں مفتی صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا،
فرمایا ابھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
آپ کو
اس خواب کے ذریعے جنت میں حضرت لدھیانوی شہید رحمة
الله عليه کے پاس پہنچنے کا اشارہ دے دیا گیا تھا، مولانا جلال پوری
شہید رحمة الله عليه تو اپنے شیخ کے پاس جانے کے لئے تیار تھے لیکن
ابھی چونکہ زندگی کے ایام باقی تھے اس لیے ہاتھ پکڑ
کر منع کر دیا گیا، جونہی وہ وقت پورا ہوا ، مولانا جلالپوری
شہید رحمة الله عليه اپنے شیخ و مرشد کے پاس جا پہنچے۔
مولانا
جلال پوری شہید رحمة الله عليه کے بڑے بھائی جناب محمدعلی
صاحب کا بیان ہے کہ شہادت سے کچھ روز قبل مجھے فون پہ فرمایا کہ دھمکیوں
کا سلسلہ جاری ہے، دعا فرمائیں۔ میں نے عرض کیا کہ
آپ جلال پور تشریف لے آئیں اور کچھ روز یہیں قیام
فرما لیں۔ ارشاد فرمایا کہ لوگ شہادت کی آرزو کیا
کرتے ہیں، میں بھاگ کر یہاں کیسے آ جاؤں؟
حضرت
شہید رحمة الله عليه کے بڑے داماد اور بھتیجے مولانا محمدانس صاحب کا
بیان ہے کہ شہادت سے تین روز قبل مجھے خلوت میں بلایا،
کچھ وصیتیں فرمائیں اور کچھ نصیحتیں، ہدایات
ارشاد فرمائیں، معاملات سمجھائے۔ تقویٰ کا یہ عالم
کہ گھر کی اشیاء کے بارے میں بھی وضاحت فرمائی،
فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز آپ کی چچی جان
کی۔ گاڑی اور ڈرائیور تک کے معاملات سے مطلع فرمایا
اور اپنی شہادت کی پیشگی اطلاع دی۔
شہادت
سے کچھ ایام قبل اپنے بڑے صاحبزادے حافظ محمد حذیفہ شہید رحمة
الله عليه کو جو جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑپکا میں زیرتعلیم
تھے فون کر کے کراچی بلوایا۔ تقدیر میں حضرت کے سفر
آخرت کی رفاقت کے لئے بڑے صاحبزادے، خدمت گزار مزاج شناس شاگرد مفتی
فخرالزمان شہید رحمة الله عليه اور باوفا مرید جناب عبدالرحمن شہید
رحمة الله عليه کا نام لکھا جا چکا تھا، اس لیے تدبیریں بنتی
چلی گئیں اور یہ نورانی و روحانی قافلہ مورخہ ۱۱/مارچ ۲۰۱۰ء بروز جمعرات مسجد خاتم النبیین
محبت الٰہی میں مجلسِ ذکر کے لئے روانہ ہوا۔ حضرت شہید
رحمة الله عليه نے اپنے اور متعلقین کو روح کی غذا بہم پہنچائی
اور حق تعالیٰ سے دست بدعا ہوئے، نہ جانے اس دعا میں حضرت نے
جلد وصالِ حق بھی اللہ سے مانگ لیا ہو گا، نمازِ عشاء سے فراغت کے بعد
جونہی قافلہ گلی سے سڑک پہ پہنچا، درندہ صفت ، شقی القلب، دارین
کے مغضوب و ملعون اور قہرخداوندی کے مستحق بدبختوں نے شیطان مردود کا
آلہ کار بنتے ہوئے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جس سے مذکورہ
بالا جملہ حضرات شہادت کے اعلیٰ منصب پہ فائز ہو کر ملاء اعلیٰ
میں جا پہنچے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ البتہ آپ کے ایک
رفیقِ سفر زخمی ہو گئے۔
رات
ساڑھے دس بجے کے بعد عزیزم مولانا محمدانس صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ
نے اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع دی۔ اللہ تعالیٰ نے
اگلے روز جمعة المبارک کے بعد بنوری ٹاؤن میں شہداء کے جنازے میں
شرکت کی سعادت نصیب فرمائی۔ آپ کو شہادت کے ساتھ لیلة
الجمعہ کی موت اور یومِ جمعہ کے دفن کی فضیلت بھی
حاصل ہو گئی۔ حدیث مبارک ہے ”جو شخص جمعرات کو فوت ہوا وہ فتنہٴ
قبر سے محفوظ رہے گا۔“ (مشکوٰة) جنازہ میں ہزاروں علماء، مشائخ،
صلحاء، طلباء اور عام مسلمانوں نے شرکت فرمائی۔ رحمہم اللہ تعالیٰ
رحمةً واسعةً
الباقیات
الصالحات
حضرت
شہید رحمة الله عليه نے اپنے جملہ دینی اداروں، تصانیف،
مضامین، ہزاروں تلامذہ و مریدین کے ساتھ اپنے لئے صدقہ جاریہ
کے طور پر اپنی صابرہ شاکرہ وفادار بیوہ جو صاحب ِنسبت اور صاحب ِجذب
بزرگ حضرت قاری شیر محمد رحمہ اللہ خلیفہٴ مجاز حضرت
مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمة الله عليه و حضرت مولانا محمد موسیٰ
جلال پوری رحمة الله عليه کی صاحبزادی ہیں۔ ایک
حافظ قرآن صاحبزادہ، چھ صاحبزادیاں جن میں چار حافظات اور عالمات ہیں،
دو بہنیں اور چار بھائی چھوڑے ہیں۔ اللہم اغفر لہم
وارحمہم وعافہم ۔ آمین یا رب العالمین
***